شکوہ جواب شکوہ مع ترجمہ و تشریح

شکوہ جواب شکوہ مع ترجمہ و تشریح

 

مصنف : ڈاکٹرعلامہ محمداقبال

 

صفحات: 46

 

’’شکوہ“ کے جواب میں نظمیں دیکھ کراقبال کو خود بھی دوسری نظم ”جواب شکوہ“ لکھنی پڑی جو 1913ء کے ایک جلسہ عام میں پڑھ کر سنائی گئی۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ”شکوہ “ پڑھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی یہ بہت مقبول ہوئی لیکن کچھ حضرات اقبال سے بدظن ہو گئے اور ان کے نظریے سے اختلاف کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ”شکوہ“ کا انداز گستاخانہ ہے۔ اس کی تلافی کے لیے اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبال ہی کے ذمے تھا۔ چنانچہ ڈیڑھ دو سال کے عرصے کے بعد انہوں نے ”جواب شکوہ“ لکھی۔ یہ 1913ء کے جلسے میں پڑھی گئی۔ جو نماز مغرب کے بعد بیرونی موچی دروازہ میں منعقد ہوا تھا۔ اقبال نے نظم اس طرح پڑھی کہ ہر طرف سے داد کی بوچھاڑ میں ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور اس سے گراں قدر رقم جمع کرکے بلقان فنڈ میں دی گئی۔ شکوہ کی طرح سے ”جواب شکوہ“ کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔شکوہ میں اقبال نے انسان کی زبانی بارگاہ ربانی میں زبان شکایت کھولنے کی جرات کی تھی یہ جرات عبارت تھی اس ناز سے جو امت محمدی کے افراد کے دل میں رسول پاک سے عقیدیت کی بناءپر پیدا ہوتی ہے۔ جواب شکوہ درحقیقت شکوہ کا جواب ہے۔ شکوہ میں مسلمانوں کی زبوں حالی بیاں کی گئی تھی اور اس کی وجہ پوچھی گئی تھی پھر وہاں مایوسی اور دل شکستگی کی ایک کیفیت تھی ۔”جواب شکوہ“ اس کیفیت کی توجیہ ہے اور شکوہ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دیے گئے ہیں۔ جواب شکوہ میں اسلامی تاریخ کے بعض واقعات اور جنگ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔زیر نظر کتاب   علامہ اقبال کی مشہور نظم   شکوہ جواب شکوہ کے متن اور اسکےمکمل مطالب  وتشریح پر مشتمل ہے۔

 

اس کی فہرست نہیں ہے

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
5.3 MB ڈاؤن لوڈ سائز

You might also like