خالق اور مخلوق کے درمیان وسیلہ کی شرعی حیثیت

خالق اور مخلوق کے درمیان وسیلہ کی شرعی حیثیت

 

مصنف : امام ابن تیمیہ

 

صفحات: 66

 

مسئلہ آخرت کاہو یا دنیا کاانسان ’’ وسیلہ‘‘ کامحتاج ہے ۔ وسیلہ زندگی کی ایک بنیادی حقیقت ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کااعتراف ہرحقیقت پسند کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اہل یمان کووسیلہ کاحکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدہ) ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘۔وسیلہ کامطلب ہے ایسا ذریعہ استعمال کیا جائے جو مقصود تک پہنچا دے۔توسّل اور اس کے شرعی حکم کے بارے میں بڑا اضطراب واِختلاف چلا آ رہا ہے ۔کچھ اس کو حلال سمجھتے ہیں اورکچھ حرام ۔کچھ کو بڑا غلو ہے اور کچھ متساہل ہیں ۔اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیاہے ، جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت ۔مثلاً اولیاء کی قبریں ،ان قبروں پر لگی ہوئی لوہے کی جالیاں ،قبر کی مٹی ،پتھر اور قبر کے قریب کا درخت۔اس خیال سے کہ ”بڑے کا پڑوسی بھی بڑا ہوتا ہے”۔اور صاحب قبر کے لئے اﷲکا اکرام قبر کو بھی پہنچتا ہے ‘جس کی وجہ سے قبر کا وسیلہ بھی اﷲکے پاس درست ہوجاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین نے تو غیر اﷲسے استغاثہ کو بھی جائز قرار دے دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ یہ بھی وسیلہ ہے ‘حالانکہ یہ خالص شرک ہے جو توحید کی بنیاد کی خلاف ہے۔ جائز وسیلہ کی تین صورتیں ہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔ 1۔اللہ تعالیٰ کے اسماء کا وسیلہ قرآن میں ہے: وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا(الاعراف:108)’’اور اللہ کے اچھے نام ہیں پس تم اس کے ناموں سے پکارو‘‘۔اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماء حسنیٰ کے وسیلہ سے دعا کرنا درست ہے جیسا کہ اوپر آیت میں ذکر ہے جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبیﷺ سے دعا کا پوچھا تو آپﷺ نے یہ دعا پڑھنے کا کہا: ” قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ “(صحيح بخاری:834’)’اے اللہ ! یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ۔پس تو اپنی خصوصی بخشش کے ساتھ میرے سب گناہ معاف کردے او رمجھ پر رحم فرما، بے شک تو ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کو وسیلہ بنایا گیا۔ 2۔اللہ کی صفات کے ساتھ وسیلہ حدیث میں ہے: ’’اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي‘‘(سنن النسائی :1306)’’اے اللہ میں تیرے علم غیب او رمخلوق پر قدرت کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے مجھے حیات رکھا او رجب تیرے علم کے مطابق میرا مرنا بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفات، علم او رقدرت کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔3۔ نیک آدمی کا وسیلہ ایسے آدمی کی دعا کو وسیلہ بنانا کہ جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔احادیث میں ہےکہ صحابہ کرام بارش وغیرہ کی دعا آپؐ سے کرواتے۔(صحيح بخاری :847)۔حضرت عمرؓ کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو لوگ حضرت عباسؓ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ حضرت عمر اس موقع پر فرماتے ہیں: ’’اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ (صحيح بخاری:1010)۔ ’’اے اللہ! پہلے ہم نبیﷺ کووسیلہ بناتے (بارش کی دعا کرواتے) تو تو ہمیں بارش عطا کردیتا تھا اب (نبیﷺ ہم میں موجود نہیں) تیرے نبیﷺ کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) وسیلہ بنایا ہے پس تو ہمیں بارش عطا کردے۔اس کے بعد حضرت عباسؓ کھڑے ہوئے اور دعا فرمائی۔مذکورہ صورتوں کے علاوہ ہر قسم کاوسیلہ مثلاً کسی مخلوق کی ذات یافوت شدگان کا وسیلہ ناجائز وحرام ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب’’وسیلہ کی شرعی حیثیت ‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫ کے توسل کےموضوع پر مختصر اور جامع رسالہ ’’ الواسطہ بین الحق والخلق ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔مترجم جناب قاری سیف اللہ ساجد قصوری (فاضل جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد) نےاس رسالہ کو اردو قالب میں منتقل کرتے ہوئے انتہائی شستہ اور قابل تعریف اسلوب اختیار کیا ہے ۔زبان میں سلاست وروانی کے ساتھ ساتھ مصنف نے مدعا ومقصود کو قارئین کےلیے انتہائی آسان بنا دیا ہے ۔فاضل مترجم نے ترجمہ کے علاوہ اس میں علیحدہ علیحدہ عنوانات قائم کیے ہیں اور قرآنی آیات واحادیث کی تخریج بھی کردی ہے۔

 

عناوین صفحہ نمبر
انتساب 5
کلمہ تشکر 6
کتا ب ہذا کی خصو صیات و عر ش نا شر 7
ابتد ائیہ 8
تا ثرات ڈا کٹر  عبد الرحمان  یو سف  صاحب 9
 مقدمہ شیخ الحدیث   وا لتفسیر  مو لنا صادق خلیل صاحب 10
شیخ الا سلام ابن تیمیہ کا مختصر تعا رف 12
 خطبتہ الکتا ب 18
 احکامات  الہی انبیا ء  کرام  کے ذر یعہ  سے ہم تک پنچے ہیں 18
انبیا ء کرام پر  ایمان جنت  کی علامت  اور ان کی مخا لفت  جہنم کا سبب ہے 19
ا نبیا ء  کرام  اللہ  تعالی ہی کے بھیجے ہو ئے ہیں 21
قرآ ن پاک  کی مکی سو رتوں کا مو ضوع 23
انبیا ء  کرام  بھی نصرت خدا وندی  کے مختا ج ہیں 23
انبیا ء  کرام  کی اعا عت  ہی کا میابی  کا ذریعہ ہے 24
انبیا ء کرام  کسی نفع  و نقصان  کے ما لک نہیں  ہیں 25
اللہ تعا لیٰ کی اجازت کے بغیر کو ئی بھی سفارش نہیں کر سکتا 25
نفع یا نقصان  کا اختیا ر صرف اللہ  کے پا س ہے 28
علما ء انبیا ء کرام کے وا رث ہیں 32
نفع یا نقصان  میں علما ء اور مشا ئخ کا و سیلہ  پکڑنا حرام ہے 33
مخلو ق کی طرح اللہ تعا لیٰ  وا سطوں کا مختا ج  نہیں ہے 34
اللہ  تعالیٰ  کے وا سطو ں کا واسطوں  کا مختا ج نہ ہونے  کی پہلی وجہ 34
اللہ  تعالیٰ  کے وا سطو ں کا واسطوں  کا مختا ج نہ ہونے  کی دو سری  وجہ 35
اللہ  تعالیٰ  کے وا سطو ں کا واسطوں  کا مختا ج نہ ہونے  کی تیسر ی   وجہ 36
مشرک کے حق میں نبی  کی سفارش  بھی قبو ل نہ ہو گی 42
دعا کرنے  میں اعتداء (حد سے نکل جانا ) حرام ہے 44
دعا کرنے  میں حد  سے تجاوز  کرنے کی تعریف 44
اسباب  کو ترک  کرنا  جہا لت  اور ان پر بھرو سہ  شرک ہے 45
زندہ  آدمی  سے دعا کروانا  جا ئز ہے 46
ایمان کی دو لت  سب سے   بڑی  دو لت ہے 50
دین کی نعمت  ہی حقیقی  نعمت  ہے 51
غیر اللہ سے  سو ال  کرنا حرام ہے 52
اللہ تعا لیٰ کسی وسیلہ  کے بغیر  سب کی سنتا  ہے 53
صر ف اللہ سے ہی ڈرنا چا ہئے 56
 تو حید  ربانی  رسو ل اللہ ﷺ کی زبا نی 58
خالق کے پیدا  کردہ  اسبا ب  کو  اختیار  کرنا  شرک نہیں 61
دنیا وی  اسباب  اختیار  کرنے  میں تین با توں   کا خیال رکھنا  ضرو ری ہے 62
پہلی بات 62
دو سر ی بات 63
تیسر ی بات 64

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
6.7 MB ڈاؤن لوڈ سائز

You might also like