اسلامی خلفاء و ملوک اور تاریخ اسلام سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ

اسلامی خلفاء و ملوک اور تاریخ اسلام سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ

 

ڈاؤن لوڈ آرکائیو
ڈاؤن لوڈ جمپ شیئر

چونکہ آج کل چند لوگ اسلامی تاریخ سے متعلق اپنی کج فہمی کے سبب اسلام کے سیاسی نظام کی غلط تشریح کرتے ہیں اور اس ضمن میں خیر القرون کے مسلمانوں پر نقد آراء ہوتے ہیں سو مناسب سمجھا کہ اس متعلق ایک آسان فہم کتاب سے قارئین کو روشناس کروایا جائے جو کہ نہایت مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ مدلل اور جامع بھی ہو۔ سو اس غرض سے اس احقر نے حافظ صلاح الدین یوسفؒ کی کتاب “اسلامی خلفاء و ملوک اور تاریخ اسلام سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ” کا انتخاب کیا جس میں متذکر تمام خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ۸۶ صفحات کا یہ رسالہ اگر کوئی شخص پوری غیر جانبداری سے ایک نشت میں پڑھ ڈالے تو یقیناً اسلامی خلافت اور اسلامی خلفاء کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام سیاست سے متعلق بھی اس کی کئی غلط فہمیاں رفع ہوجائیں گی ان شاءاللہ۔ زیر تبصرہ کتاب مشہور اہلحدیث عالم فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کا ایک مختصر مقالہ ہے جو کہ ۱۹۸۰ کی دہائی کے وسط میں ہمدرد فاؤنڈیشن کے تحت منعقدہ تیسرے مذاکرہَ ملی میں پڑھا گیا تھا جس کو بعد میں دار الدعوۃ السلفیہ لاہور نے ایک مختصر رسالے کی شکل میں شائع کیا۔ سب سے پہلے تو یہ عرض کردیں کہ اس رسالے کی پہلی خوبی اس کا اختصار اور جامعیت ہے۔ جن مباحث اور افکار کے لئے ایک صخیم کتاب درکار ہوسکتی تھی ، حافظ صلاح الدین یوسفؒ جیسے صاحب علم نے انتہائی جامعیت کے ساتھ ان کو چند صفحات پر مشتمل ایک مختصر مقالے میں سمو دیا۔ یہ رسالہ اپنی پہلی سطر سے لیکر آخری سطر تک نہ صرف نہایت دلچسپ ہے بلکہ اسلامی نظام حکومت اور اسلامی خلفاء و ملوک سے متعلق بہت ہی وقیع معلومات بھی بہم پہنچاتا ہے۔ حافظ صاحب اس مقالے کا آغاز “اسلامی ریاست کی تشکیل کا صحیح طریقہ” کی سرخی سے کرتے ہیں جس میں وہ حکومتی سطح پر ایک ایسے ادارے کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں ایک طرف اعلیٰ درجے کے ایسے اہل علم شامل ہوں جنہیں قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کا گہرا درک حاصل ہو تو دوسری طرف اس طور کے جدید تعلیم یافتہ افراد شامل ہوں جو جدید مسائل کا بھرپور ادراک رکھتے ہوں اور قلب و ذہن کے لحاظ سے خالص مسلمان اور ہر طرح کے مغربی افکار کی مرعوبیت سے عاری ہوں، تاکہ ان ہر دو گروہ اہل علم افراد پر مشمل یہ ادارہ اسلامی ریاست سے متعلق درست منھج کی طرف عوام کی رہنمائی کرسکے اور ان کو پیش آمدہ جدید مسائل کا قرآن و حدیث کی روشنی میں حل پیش کرسکے۔اس تمہید کے ساتھ حافظ صاحب “موجودہ مسلمان مملکتوں کے حکمرانوں کا طرز عمل” کے عنوان کے تحت ان کی اسلام بیزاری اور اسلام کو نقصان پہنچانے والے اقدامات پر سخت شکوں کناں نظر آتے ہیں۔ اس سرخی کے تحت حافظ صاحب نے جو مقدمہ پیش کیا ہے وہ پڑھنے لائق ہے۔

آگے جاکر حافظ صاحب “بعض مفکرین کی خامیاں اور کوتاہیاں” کی سرخی قائم کرکے اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنے والے مفکرین کی مساعی کی تہہ دل سے تحسین کرنے اور معترف ہونے کے ساتھ ساتھ پورے احترام کے ساتھ ان سے اختلاف کرتے ہیں کہ موجودہ دور کے جمہوری نظام سے مرعوب ہوکر ان مفکرین نے ملوکیت یا بادشاہت کو نہایت مذموم شے باور کروانے پر اپنی محنتیں صر ف کر رکھی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ اصحاب خلفائے اربعہ اور امیر عمر بن عبدالعزیزؒ کے علاوہ تمام خلفاء و سلاطین سے سخت نالاں نظر آتے ہیں اور ان کا ذکر ناگوار انداز میں کرتے ہوئے ان کے دور حکومت کو جاہلی حکومتیں باور کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ صاحب “خلافت و ملوکیت” کے عنوان سے ایک بھرپور بحث کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کا اصل سیاسی نظام مباح ہے۔ شریعت کو اس سے قطعی بحث نہیں کہ نظام سیاسی کی ہئیت ترکیبی کیا ہوگی، سر حکومت کیسے برسر اقتدار آئیگا اور مختلف النوع معاشروں کو اسلامی برادری کے ایک رشتے میں کیسے منسلک کیا جائیگا۔ اللہ نے مسلمانوں سے جس خلافت کا وعدہ کیا تھا، اس میں یہ نہیں بتایا کہ اسکا دستور اساسی کیا ہوگا، وہاں الفاظ ہیں ’’کما استخلف الذین من قبلھم ‘‘ (جیسے ان سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی)۔ دنیا میں حکومت کی جتنی اور جیسے بھی صورتیں رائج چلی آرہی ہونگی ویسی ہی مسلمانوں کی حکومت بھی ہوگی، فرق صرف اتنا ہوگا کہ اس حکومت کا مقصد دین برپا کرنا ہوگا اور اس کے قوانین ایسے لچکدار ہونگے کہ دنیا کی ہر قوم انکے تحت زندگی بسر کر سکے۔ اگر ملوکیت یا بادشاہت واقعی کوئی مذموم شے ہوتی تو یہ بات کیسی عجیب ہے کہ پوری تیرہ صدیوں میں اسلامی بادشاہتیں قائم رہیں لیکن عہد خیرالقرون سمیت کسی دور میں بھی علمائے امت نے اس نظام حکومت کو نشانہ تنقید یا ہدف ملامت نہیں بنایا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں علمائے حق گزرے ہیں، ان کی موجودگی میں بادشاہی نظام قائم رہا، صحابہ کرام کے دور میں ایسا ہوا، تابعین و تبع تابعین کے دور میں فقہاء و محدثین کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے جنھوں نے مختلف مواقع پر مختلف کاموں پر خلفائے اسلام کو ٹوکا لیکن ان میں سے کسی نے خلیفہ کو اپنے بعد اپنے بیٹے کو نامزد کرنے پر نہیں ٹوکا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ نظام حکومت صحیح نہیں ہے۔ تو پھر ہمارے موجود ہ زمانے کے مفکرین کی یہ خامہ فرسائی کہ ملوکیت و بادشاہت سر تا پا مذموم ہے جس کے بانی ایک جلیل القدر صحابی سیدنا معاویہ ؓ تھے جن کے عہد حکومت کے اختتام تک اسلامی حکومت کی تمام امتیازی خصوصیات مٹ چکی تھیں، سخت گمراہ کن نظریہ ہے ، جس کی تبلیغ و اشاعت سے اسلاف سے بدظنی کے علاوہ اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہونا۔ ملوکیت کے مباح ہونے کی تائید میں حافظ صاحب مختلف علماء و مورخین کے تائیدی اقوال بھی ساتھ ساتھ نقل کرتے جاتے ہیں۔

تاہم قاری کو کسی قسم کا التباس نہ ہو کہ شائد حافظ صاحب خلافت راشدہ اور مابعد کی حکومتوں کو بالکل یکساں قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں، حافظ صلاح الدین یوسف صراحت سے بحث کرتے ہیں کہ بلاشبہ خلافت راشدہ میں خلفائے راشدین کا اسلامی کردار جتنا شفاف اور بے غبار تھا، بعد کے خلفاء و ملوک کا کردار بالعموم اس معیار سے فروتر ہی رہا لیکن یہ کہنا بھی سخت غیر درست ہے کہ خلافت راشدہ کے جاتے ہی جو حکومتیں آئیں وہ جاہلیت کی آئنیہ دار اور اسلامی خصوصیات سے عاری تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انحطاط کا یہ عمل دور نبوت سے بعد کے ساتھ بتدریج ہوا اور جیسے جیسے بعد بڑھتا گیا اور زمانہ گزرتا گیا یہ انحطاط بھی بڑھتا گیا لیکن یہ زوال و تنزل صرف نظام سیاست میں ہی نہیں آیا بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں آیا جس میں اخلاق و معاشرت کو بھی اتنا ہی دخل رہا جتنا سیاست کو۔

آگے جاکر “مطلوب و نامطلوب” کی بحث قائم کرکے حافظ صلاح الدین صاحب صراحت سے ثابت کرتے ہیں کہ کوئی بھی نظام حکومت مطلوب یا نا مطلوب نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا استعمال اسکو مطلوب یا نا مطلوب ٹھہراتا ہے۔ اگر ملوکیت کے زیر اثر آنے والا حکمران عمر بن عبدالعزیز جیسا متقی انسان ہو تو یہی ملوکیت مطلوب ٹھہرتی ہے جبکہ اگر خلافت کے شوروی نظام کے تحت آنے والا شخص موجودہ حکمرانوں جیسا کرپٹ نکل جائے تو وہی خلافت مذموم ہوجائیگی۔ نظام حکومت کا مطلوب و نامطلوب ہونا، حکمران مقرر کرنے کے طریقے میں مضمر نہیں، بلکہ اس نظام حکومت کے نتائج میں مضمر ہے۔ صفحہ ۴۷ پر “دور حاضر کے مفکرین کا نقطہ نظر اور اس کے خطرناک نتائج ” کی سرخی قائم کرے حافظ صاحب ثابت کرتے ہیں کہ ان اصحاب کا قائم کردہ مقدمہ اس بات پر متنج ہوتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت ایک طرح کا ناقابل تنفیذ نظام حکومت ہے جو کہ صرف تیس سال میں ہی غیر پائیدار ثابت ہوگیا اور جو نبی یہ نظام حکومت لایا تھا اس کے اپنے تربیت یافتہ اصحاب نہ صرف اس کو چلانے میں سخت ناکام رہے بلکہ ان کے ہاتھوں ہی یہ نظام حکومت اپنی موت مر کر ملوکیت جیسے “مذموم” نظام میں تبدیل ہوگیا۔ اسی منطقی سوچ کا نتیجہ ہے کہ یہ مفکرین پوری بیباکی و دلیری کے ساتھ سیدنا عثمانؓ، سیدہ عائشہؓ، سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ، سیدنا عمرو بن العاصؓ اور سیدنا معاویہ ؓ وغیرہم کے کردار کو مجروح تاریخی روایات کے تحت بری طرح مسخ کرکے پیش کرتے ہیں۔جبکہ مستشرقین یہ باور کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ جب نبی کے اصحاب اسلامی نظام قائم نہیں کرسکے تو آج کے یہ داعی بھلا کیا کرسکیں گے ۔

آگے جاکر صفحہ ۵۱پر “بگاڑ کے اسباب” کے عنوان کے تحت انتہائی عالمانہ اور منطقی بحث قائم کرکے حافظ صاحب صراحت سے ثابت کرتے ہیں کہ اس بگاڑ کی اصلی وجہ عربی کے اس مقولے میں پنہاں ہے کہ اعمالکم عمالکم یعنی جیسے تمہارے اعمال ہونگے ویسے حکمران تم پر مسلط ہونگے۔ دور نبویﷺ سے دور ی کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں بحیثیت مجموعی تنزل و انحطاط واقع ہوتا رہا جس کا دائرہ کار اخلاقیات و معاشرت سےلیکر معاشیات و سیاسیات تک محیط تھا۔ جبکہ ہمارے موجودہ مفکرین کی بنیادی غلطی یہ رہی کہ ان کے نقطہ نظر سے بگاڑ صرف سیاست میں آیا جبکہ بگاڑ ہر شعبہ زندگی میں اپنی تدریجی رفتار سے آیا جس کے اثرات سیاست پر بھی پڑے ۔

صفحہ ۶۳ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب اس کتاب کی سب سے دلچسپ بحث بعنوان ” موجودہ حالات میں کیا جمہوریت ہمارے لئے موزوں اور مناسب ہے؟” قائم کرتے ہیں۔ اس عنوان کی بابت یہا ں کچھ عرض کرنا مزا کرکرا کرنے کے مترادف ہی ہوگا۔ قارئین خود یہ بحث پڑھیں اور سر دھنیں کہ کیا ہی عمدہ مبحث قائم کرکے حافظ صلاح الدین یوسف اسلامی نظام حکومت کے لئے ایک بہترین لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں۔آخر میں “موجودہ ملکی حالات سے متعلق چند باتیں” کے تحت اپنی گزارشات قارئین کے سامنے رکھ کر حافظ صاحب اس نصیحت کے ساتھ مقالے کا اختتام کرتے ہیں کہ اصل ضرورت بحیثیت قوم اپنا رخ بدلنے کی ہے۔ حکمرانوں کو کوسنا، اور ہر غلط چیز کے لئے بیوروکریسی وغیرہ کو مورد الزام ٹھہرانا کوئی حل نہیں ہے۔ یہ حکمران یہ بیوروکریٹ کوئی آسمان سے نہیں ٹپکے۔ یہ ہم آپ میں سے ہی اوپر اٹھ کر آتے ہیں۔ جب قوموں کا مجموعی مزاج ہی زوال کا شکار ہو تو پھر ان پر عمال و حکمران بھی بداعمال ہی مقرر ہوتے ہیں۔ سو اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ بحیثیت فرد، بحیثیت قوم ہم اسلامی قوانین اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی کریں اور اللہ اور رسولﷺ کی بغاوت کا وہ راستہ چھوڑدیں جس پر اس وقت ہماری پوری قوم گامزن ہے۔

المختصر حافظ صلاح الدین یوسفؒ کی یہ مختصر سی کتاب اپنے موضوع پر بہت ہی وقیع و جامع ہے۔ جن مضامین کو سمجھنے کے لیے عموماً ضخیم کتب درکار ہوتی ہیں حافظ صلاح الدین یوسفؒ نے اس کو ایک مختصر رسالہ میں سمو کر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ ایسی کتابوں کا مطالعہ دین کے ہر طالبعلم کو لازمی کرنا چاہیئے۔ ذیل میں ہم قارئین کے استفادے کے لئے اس کتاب کا ڈانلوڈ لنک دے رہے ہیں:

تحریر: محمد فھد حارث

You might also like