شمالی امریکا کے مسلمان

شمالی امریکا کے

 

مصنف : ای وون یازبک حداد

 

صفحات: 726

 

کی طرف سے آخری اور مکمل دین ہے جو انسانیت کے تمام کا پیش کرتاہے اور آج کی سسکتی ہوئی انسانیت کو امن اور سکون کی دولت عطا کرتے ہوئے دنیاوی کامیابی کے ساتھ اخروی نجات کا باعث بن سکتا ہے ۔ وہ دین یا نظام ہے جس میں حضور ختم المرسلینﷺ کی وساطت سے انسانیت کے نام کے آخری پیغام یعنی مجید کی روشنی میں زندگی بسر کی جائے۔ اُس خداوندی کی روشنی میں فطرت کی قوتوں کو مسخر کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لایا جائے۔اُس ضابطہ پر کامل ایمان لاتے ہوئے قوانینِ خداوندی کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے۔ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے جو نظام اور دیا ہے اس کا نام ہے۔ اس نظام زندگی کی رہنمائی انبیا اکرام کی صورت میں جاری رہی اور حضور پاک ﷺ پر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔

 

عناوین صفحہ نمبر
مضمون نگار ح
دیباچہ ڑ
تعارف ش
پہلاحصہ۔مذہبی برادریاں 1
باب 1:اقلیت درواقلیت شمالی میں اہل تشیع کامعاملہ 3
باب2: کاسورج مغرب سےطلوع ہوگادورآخرمیں منسزفرخان اوردی نیشن آف اسلام 17
باب 3:شہری تحریک دارالاسلام کی تشکیل 66
باب4:عصرحاضرکی امریکی روحانیت میں روایت اورجت باوامحی الدین کاحلقہ اردت 96
باب 5:پانچ فیصدوالےخداؤں اورزمینوں کی نوخیزقوم 142
دوسراحصہ۔ریاست ہائے متحدہ امریکاکےبڑےبڑے شہری مراکزمیں آبادیوں کی پچی کاری 173
لاس انیجلس میں 175
سان ڈیگومیں 219
سی ایٹل کےمسلمان 253
رضائے الہی کاحصول نیویارک شہرمیں تارکین وطن 272
مارک فہرس 272
شکاگومیں آبادکارمسلمانوں کی سرگرمیاں 302
انڈیاناپولس کےمسلمان 336
روچسڑکی آبادی میں تنوع 360
نیوانگلینڈ کااسلامی مرکز 377
مانٹریال کےمسلمان 406
تیسراحصہ۔شہری پس منظرمیں نسلی آبادیاں 429
ڈیربورن میں مساجداوران کےاجتماعت 431
بکتاشی تکیہ اورامریکہ میں البانوی مسلمانوں کی مساجد 458
بلدیہ ڈیٹرائٹ میں ترکوں کی قدیم رضاکارانہ تنظیمیں 485
معمرمسلم تارکین وطن ضروریات اورمسائل 517
ڈیلانوکےیمنی ایک دیہی آبادی کےخدوخال 537
سیکولرتاریکن وطن الاانیجلس کےایرانی مسلمانوں میں 553
مسجدالمتکبرایک قدامت پسندافریقی امریکی مسلم آبادی کی 586
عورتوں کی ملازمت اورفلاح وبہود کےبارےمیں ڈیربورن کےعلاقےمیں مقیم آبادکارعورتوں اورمرودوں کےرویے 617
کتابیات 643
اشاریہ 667

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
10.6 MB ڈاؤن لوڈ سائز

You might also like
Leave A Reply