سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ

سیدنا غنی ؓ

 

مصنف : م حسین ہیکل

 

صفحات: 392

 

خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدناعثمان غنی اعلیٰ و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا آپ سے کردیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر وں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى الله عنها حبشہ ہجرت فرماگئے، جب حضرت رقیہ رضى الله عنها کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى الله عنها کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا ۔اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺنے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی ۔جب رسول اکرم ﷺنے زیارت کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ ہواکہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ ﷺنے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نےآپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کردیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو سے نبی ﷺنے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہوگئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ المومنین سیدنا عمر کی کا نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ ی معت پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہ دی جاتی ۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب ہی نہیں تھے بلکہ مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر ہر دم پیش رکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کردیاگیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے82سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے شہید کردیا گیا۔سیدنا عمر فاروق کے بعد امت کی زمامِ اقتدار سنبھالی اور خلیفۂ ثالث مقرر ہوئے ۔ ان کا دورِ حکومت تاریخ اسلام کا ایک تابناک اور روشن باب ہے ۔ ان کے عہد زریں میں عظیم الشان فتوحات کی بدولت سلطنت کی حدود اطراف ِ عالم تک پھیل گئیں اور انہوں نے اس دور کی بڑی بڑی حکومتیں روم ، فارس ، کےبیشتر علاقوں میں پرچم اسلام بلند کرتے ہوئے عہد فاروقی کی عظمت وہیبت اور رعب ودبدبے کو برقرار رکھا اور باطل نظاموں کو ختم کر کے ایک مضبوط مستحکم اورعظیم الشان اسلامی مملکت کواستوار کیا ۔ زیر کتاب '' حضرت عثمان غنی ‘‘عصر جدید کے نامور مؤرخ محمد حسین ہیکل کی تصنیف ہے ۔موصوف نے اس کےعلاوہ پر '' محمد ﷺ،حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمرفاروق اعظم ‘‘ بھی تصنیف کی ہیں ۔کتاب ہذا '' حضرت عثمان غنی ‘‘ بھی ان کی سریز کی ایک اہم کڑی ہے ۔محمد حسین ہیکل کی یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل تھی جس میں مترم کتاب جناب پروفیسر مرزا صفدر بیگ نے آخری دو ابواب کا اضافہ کیا ہے ۔ ایک باب میں سیدنا عثمان پر کیے گئے اعتراضات کا تفصیل سےجواب دیاگیا ہے اور دوسرے باب میں حضرت عثمان کے عنوان سے آپ کی فقہی وبصارت کو پیش کیاگیا ہے ۔

 

عناوین صفحہ نمبر
تمہید 11
دیباچہ طبع دوم 15
سخن ہائے گفتنی 19
حرف جبین 21
مقدمہ 24
الفصل الاول
شوریٰ اور بیعت عثمان ﷜ 121
الفصل الثانی
حضرت عثمان ﷜ماضی اور مستقبل کے آئینہ میں 175
الفصل الثالث
عہد عثمانی ﷜کی فتوحات 215
الفصل الرابع
حضرت عثمان ﷜کی حکومت 296
الفصل الخامس
حضرت عثمان ﷜کی 320
الفصل السادس
حضرت عثمان ﷜ پر لگائے گئے اعتراضات اور ان کے جواہات 345
الفصل السابع
فقہ حضرت عثمان غنی ﷜ 360
شجرہ ہائے جسمانی سادات بنی رقیہ ؓ 385
شجرہ حضرت شیخ جمال الدین فرغانی ﷫ 387
نصائح حضرت عثمان غنی ﷜ 387

ڈاؤن لوڈ 1
ڈاؤن لوڈ 2
8.6 MB ڈاؤن لوڈ سائز

You might also like
Leave A Reply